I found out much later that I was falling in love with my father

 My love

I found out much later that I was falling in love with my father. The foundation of this love was laid by my mother. I was very young, that was the age when children are close to their mothers. I remember my mother often asking me who I love the most. I start taking the names of family members and they say who is more loved than this? I would take someone else's name. And then at the end. Love you the most Mother's face was fading. She would ask again. I love you but who do you love more than me? I don't say you love the most, she says: I know you love your dad the most. Then she would say, "Look, Daddy works in the office all day to bring you so-and-so toys." We work so hard for you. Look how hot it is outside but he is still working in the office for his son. It was the first time I fell in love with my father. At every stage, my mother used to make me realize that if my father is not with me at the moment, it is because of his love for me. My father was in the civil service but I always saw him working part time.

 On the other hand, I don't remember ever carrying a geometry box from the previous day in my school life. I was the prince who would either lose today's pencil, eraser and sharpener and come home or give it to a friend. I needed a new pencil every day. Dad used to buy pencils, erasers and sharpener boxes every month when he got paid. There were two or three types of chairs, tables and bench desks in the house for my homework. I watched this series until my father's retirement. I found out much later that for a hefty FC College fee, my father used to give a lecture at an institution several kilometers away from the office during a lunch break on a hot July afternoon in June. He had stopped eating lunch. These lectures were in addition to part-time employment. During the Pakistan Times, he worked from 8 to 4 in the morning and then in the winter from 6 to 1 in the evening. All these struggles of theirs kept pouring in our ears under one pretext or another. Maybe in the sense that giving them less time somewhere doesn't make us hate them. On the other hand, it is surprising to think that we have never realized that fathers give us less time. We used to be the center of all their attention after the job. From reciting the Holy Quran in the morning to memorizing, even in heavy rain, he used to come to pick me up without waiting for a while. Made When you fall in love with someone, then there is no denying it. For a homeless boy like me, this love was the reason I remembered my father's advice.

 He once said: Son, I have lived my life in such a way that if the door of my house is knocked, my heart does not beat and I go to the door myself, try to live such a life. Since that advice, I have never borrowed from anyone, or if I have ever borrowed, I have not kept for more than a day or two. Instead of trying to recover, they wallow in their sadness and thus, experience more failure. He was the one who said that if education does not make you a good person, then these degrees are of no use. His words took away from me the difference between arrogance, pride or lack of wealth. I fell in love with dhabs and tea houses. Today, when I see young people hating their parents and especially their fathers, I think that it may be because of their mothers. In our country, women usually scare their children away from their fathers. "If your father comes today, I will tell him." The father works for the children and by the time he realizes it, his own children hate him. I think it is the duty of women to make their children realize that if for some reason their father cannot give them time, it is because of them. To be honest, I probably wouldn't have gotten so much respect if I hadn't fallen in love with my father. This love is a guarantee of blessings and success, many difficult stages are solved with its blessings. My mother laid the foundation for my love for my own father

(Sayed Badr Saeed)

میرا عشق ـ

مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا تھا کہ میں اپنے والد سے عشق کرنے لگا ہوں ۔ اس عشق کی بنیاد میری والدہ نے رکھی تھی ۔ میں بہت چھوٹا تھا ، یہ وہی عمر تھی جب بچے والدہ کے قریب ہوتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ماں جی اکثر پوچھا کرتی تھیں کہ تمہیں سب سے زیادہ پیار کس سے ہے ۔ میں گھر والوں کے نام لینے لگتا اور وہ کہتیں اس سے زیادہ پیار کس سے ہے ؟ میں پھر کسی اور کا نام لے لیتا ۔ اور پھر آخر میں کہتا ۔ سب سے زیادہ پیار آپ سے ہے ۔ ماں جی کا چہرہ جیسے بجھ سا جاتا ۔ وہ پھر سوال کرتیں  ۔مجھ سے تو پیار ہے لیکن مجھ سے زیادہ پیار کس سے کرتے ہو ؟ میں کہتا نہیں سب سے زیادہ پیار آپ سے ہی ہے تو وہ کہتیں :مجھے پتا ہے  سب سے زیادہ پیار تو اپنے  پاپا سے ہی کرتے ہو ۔ پھر وہ بتاتیں کہ دیکھو پاپا سارا دن دفتر کام کرتے ہیں تاکہ آپ کے لئے فلاں فلاں کھلونے لائیں ۔ اتنی محنت آپ کے لئے ہی تو کرتے ہیں ۔ دیکھو باہر کتنی گرمی ہے لیکن وہ پھر بھی اپنے بیٹے کے لئے دفتر کام کر رہے ہیں ۔ یہ وہ پہلا احساس تھا جس کے بعد مجھے اپنے والد سے عشق ہونے لگا ۔ ماں جی ہر مرحلے پر مجھے احساس دلاتی رہیں کہ میرے والد اگر اس وقت کس وجہ سے میرے پاس نہیں ہیں تو اس کی وجہ ان کا مجھ سے پیار ہے ۔ میرے والد سول سروس میں تھے لیکن میں نے ہمیشہ انہیں پارٹ ٹائم ملازمت کرتے دیکھا ۔

 دوسری جانب مجھے نہیں یاد کہ میں سکول لائف میں کسی دن پچھلے دن والا جومیٹری باکس لے کر گیا ہوں ۔ میں وہ شہزادہ تھا جو آج کی پنسل ، ربڑ اور شاپنر یا تو گما کر گھر آتا تھا یا کسی دوست کو دان کر دیتا تھا ۔ مجھے ہر روز نئی پنسل درکار ہوتی تھی ۔ ابا جی ہر ماہ تنخواہ ملنے پر پنسل ، ربڑ اور شاپنرز کے ڈبے خرید لاتے ۔ میرے لئے ہوم ورک کے لئے بھی گھر میں دو تین طرح کے کرسی ، میز اور بنچ ڈیسک موجود ہوتے تھے ۔ یہ سلسلہ میں نے ابا جی کی ریٹائرمنٹ تک دیکھا ۔  مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ ایف سی کالج کی بھاری فیس کے لئے ابا جی جون جولائی کی تپتی دوپہر میں لنچ بریک کے دوران  دفتر سے کئی کلومیٹر دور جا کر ایک ادارے میں  لیکچر دیا کرتے تھے ۔ انہوں نے دوپہر میں کھانا کھانا چھوڑ دیا تھا ۔ ان کے یہ لیکچر پارٹ ٹائم ملازمت کے علاوہ تھے ۔ پاکستان ٹائمز کے زمانے میں انہوں نے صبح 8 سے سے 4 کی ملازمت کے بعد سردیوں میں  شام 6 سے رات 1 بجے کی دوسری ملازمت بھی کی ۔ ان کی یہ ساری جدوجہد ماں جی کسی نہ کسی بہانے ہمارے کانوں میں انڈیلتی رہیں ۔ شاید اس احساس کے تحت بھی کہ کہیں ان کا کم وقت دینا ہمیں ان سے متنفر نہ کر دے ۔ دوسری جانب یہ سوچ کر بھی حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ ابا جی ہمیں کم وقت دیتے ہیں ۔ ملازمت کے بعد ان کی تمام تر توجہ کا مرکز ہم ہوا کرتے تھے ۔ صبح قرآن پاک پڑھانے سے لے کر دوران حفظ شدید بارش میں بھی کچھ دیر  انتظار کئے بنا بھیگتے ہوئے مجھے لینے آنا ان کی عادت تھی ۔اس میں دو رائے نہیں کہ مجھے اس دنیا نے جو عزت دی اس کی وجہ  میرا اپنے والد سے عشق ہی بنا ۔ جب آپ کو کسی سے عشق ہو جائے تو پھر اس کی کوئی بات رد نہیں ہوتی ۔ مجھ جیسے آوارہ مزاج  لڑکے کے لئے ابا جی کی نصیحتوں کو یاد رکھنے کی وجہ بھی یہی عشق تھا ۔

 انہوں نے ایک بار کہا کہ: بیٹا میں نے اپنی زندگی ایسے گزاری ہے کہ اگر میرے گھر کا دروازہ کھٹکٹھایا جائے تو میرا دل نہیں دھڑکتا اور میں خود دروازے پر جاتا ہوں ، کوشش کرنا تم بھی ایسی زندگی گزارو ۔ اس نصیحت کے بعد سے آج تک میں نے کسی سے یا تو ادھار نہیں لیا یا پھر اگر کبھی لیا ہو تو ایک دو دن سے زیادہ نہیں رکھا ۔ ہاتھ پھیلانے کی بجائے ضروریات کم کر کے عزت سے جی لینے کا سبق انہوں نے سکھایا تھا ۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ اگر تعلیم تمہیں اچھا انسان نہ بنا سکے تو پھر ان ڈگریوں کا کوئی فائدہ نہیں ، روزگار تو ان پڑھ بھی کما لیتا ہے اور تکبر جاہل کی نشانی ہوتی ہے۔ ان کی اس بات نے مجھ سے عہدوں کا تکبر ، غرور یا دولت کی کمی زیادتی کا فرق چھین لیا ۔ مجھے ڈھابوں اور چائے خانوں سے محبت ہونے لگی ۔ آج جب میں نوجوانوں کو اپنے والدین اور خصوصا باپ سے متنفر دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ اس کی وجہ شاید کی ان والدہ بھی ہوتی ہیں ۔ ہمارے یہاں خواتین عموما بچوں کو والد سے ڈرا کر اپنی بات منواتی ہیں ۔ "آج تمہارے ابو آ جائیں تو انہیں بتائوں گی" جسے جملے بچوں کو باپ سے متنفر کر دیتے ہیں اور اس کا خمیازہ بعد میں صرف باپ ہی نہیں ماں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔ باپ بچوں کے لئے ملازمت کرتا رہتا ہے اور جب اسے احساس ہوتا ہے تب تک اس کی اپنی اولاد اس سے متنفر ہو چکی ہوتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ خواتین کا فرض ہوتا ہے کہ وہ بچوں کو احساس دلائیں کہ ان کا باپ اگر کسی وجہ سے ان کو وقت نہیں دے پاتا تو اس کی وجہ وہ بچے ہی ہیں۔ سچ کہوں تو شاید مجھے اتنی عزت نہ مل پاتی اگر مجھے اپنے والد سے عشق نہ ہوا ہوتا ۔ یہ عشق برکتوں اور کامیابیوں کی ضمانت بنتا ہے ، کئی مشکل مرحلے اسی کی برکت سے  طے پاتے ہیں ۔ میرے اپنے والد سے عشق کی بنیاد میری والدہ نے رکھی تھی

(سید بدر سعید)

No comments:

Post a Comment

please do not enter any spam link in the comment box...